جنگل کا شیر ۔ ابو شیری تاریخ کے اوراق سے ایک ناقابل فراموش نام۔
مسلم تاریخ کی ایک جھلک ۔۔۔

آپ لوگوں نے صحرا کے شیر عمر مختار کا نام تو سن رکھا ہوگا جنہوں نے لیبیا کے صحرا میں اطالوی یعنی اٹلی کی فوج کو بیس سال تگنی کا ناچ نچائے رکھا
آج ہم آپ کو ایسے شیر سے متعارف کروائے گے جس کو دنیا جنگل کے شیر کے نام سے جانتی ہے جس کو عمر مختار دوم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے
جس کا نام بشیر بن سالم حارثی تھا آپ مشرقی افریقہ کے ملک تنزانیہ میں رہتے تھے اور آپ ایک عمانی عرب تھے۔ بشیر بن سالم اپنے وقت کا بہت بڑا تاجر تھا
جب جرمن فوج نے مشرقی افریقہ پر قبضہ کیا وہاں کے مسلمانوں اور لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے مسلمان کو غلام بنا لیا ان کا سامان لوٹ لیا مسجدوں کی بے حرمتی کی لوگوں کا قتل عام کیا تو بشیر بن سالم نے تزانیہ کے افریقی قبائل کو متحد کیا اور 1888 کو جرمن فوج کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا
آپ نے 20 ہزار فوج کی قیادت کی اور جرمن فوج کی برتری کے باوجود ان کو متعدد لڑائیوں میں شکست سے دوچار کیا
جرمن فوج کو کافی عرصے تک ابو شیری نے تگنی کا ناچ نچائے رکھا اور جرمن پوسٹوں کو بہت حد تک تباہوں برباد کر دیا اور ساحلوں تک قبضہ کرلیا جس کی وجہ سے مشرقی افریقہ میں موجود جرمن فوج کو برلن سے مدد لینی پڑی جس کے بعد جرمن فوج نے افریقی علاقوں کو مسلمانوں سے دوبارہ حاصل کرنے کے لیے تزانیہ کے مختلف ساحلوں پر بحری جہازوں کے ذریعے اور مختلف علاقوں میں توپوں کے ذریعے شدید گولا باری کی اور جرمن بحریہ نے مختلف مقامات پر ناکہ بندی کر دی تاکہ مجاہدین تک پہنچنے والی رسد و کمک کا راستہ روکا جاسکے
پھر جرمن نے مختلف قبائل کو ابو شیری سے غداری کرنے پر مجبور کر دیا جس کی وجہ سے بہت سارا مشرقی افریقہ کا علاقہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلنا شروع ہوگیا اور ابو شیری نے اپنے قبائل کی حفاظت کے لیے عرب فوج سے مدد مانگی۔

مگر جرمن فوج نے غداروں کے ذریعے مختلف افریقی قبائل پر دھاوا بول دیا ابو شیری اور اس کے کچھ ساتھی بمشکل جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوئے مگر ابو شیری ایک بار پھر یاوا اور مبوگا قبیلے کو بغاوت جاری رکھنے کے لیے رضا مند کرنے پر کامیاب رہا اور وہ دارالاسلام اور مبوگائی علاقوں پر ایک بار پھر حملہ کرنے کی رہنمائی کرنے میں کامیاب رہا
مگر جرمن پاور ان حملوں کو پسپا کرنے کے لیے کافی تھی اسلیے قبائل کو پسپا ہونا پڑا اور انہوں نے ابو شیری کا ساتھ چھوڑ دیا جب ابو شیری نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی تو اس کے ساتھی قبائل نے غداری کرکے ابو شیری کو پکڑوا دیا۔
جس کے بعد 15 دسمبر 1889 کو ایک فوجی عدالت نے اسے پھانسی کی سزا سنائی اور کچھ ہی دن بعد ان کو پینگانی میں پھانسی دے دی گئی اور وہی ان کو دفن کردیا گیا.
Comments
Post a Comment